شاعری عشق بھوک خودداری
رنج اس کا نہیں کہ ہم ٹوٹےیہ تو اچھا ہوا بھرم ٹوٹےایک ہلکی سی ٹھیس لگتے ہیجیسے کوئی گلاس ہم ٹوٹےآئی تھی جس حساب سے آندھیاس کو سوچو تو پیڑ کم ٹوٹےلوگ چوٹیں تو پی گئے لیکندرد کرتے ہوئے رقم ٹوٹےآئینے آئینے رہے گرچہصاف گوئی میں دم بہ دم ٹوٹےشاعری عشق بھوک خودداریعمر بھر ہم تو ہر قدم ٹوٹےباندھ ٹوٹا ندی کا کچھ ایسےجس طرح سے کوئی قسم ٹوٹےایک افواہ تھی سبھی رشتےٹوٹنا طے تھا اور ہم ٹوٹےزندگی کنگھیوں میں ڈھال ہمیںتیری زلفوں کے پیچ و خم ٹوٹےتجھ پہ مرتے ہیں زندگی اب بھیجھوٹ لکھیں تو یہ قلم ٹوٹےSee More
from Latest Activity on Virtual University of Pakistan https://ift.tt/3wkZu3A
0 comments:
Post a Comment