احمد فراض
بجھا ہے دل تو غمِ یار اب کہاں تُو بھیبسانِ نقش پہ دیوار اب کہاں تُو بھیہمیں بھی کارِ جہاں لے گیا ہے دور بہترہا ہے درپئے آزار اب کہاں تُو بھیہزار صورتیں آنکھوں میں پھرتی رہتی ہیںمری نگاہ میں ہر بار اب کہاں تُو بھیاُسی کو وعدہ فراموش کیوں کہیں اے دل!رہا ہے صاحبِ کردار اب کہاں تُو بھیمری غزل میں کوئی اور کیسے در آئےستم تو یہ ہے کہ اے یار! اب کہاں تُو بھیجو تجھ کو پیار کرے تیری لغزشوں کے سببفرازؔ ایسا گنہگار اب کہاں تُو بھیSee More
from Latest Activity on Virtual University of Pakistan https://ift.tt/3fCEFZs
0 comments:
Post a Comment