M ɩ ɽ z ʌ イ タ り ɭ ʀ posted a discussion

M ɩ ɽ z ʌ イ タ り ɭ ʀ posted a discussion

سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

---سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں---سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیںسنا ہے ربط ہے اُس کو خراب حالوں سے سو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ہیںسنا ہے درد کی گاہگ ہے چشمِ ناز اُس کی سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیںسنا ہے اُس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیںسنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیںسنا ہے حشر ہے اُس کی غزال سے آنکھیں سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیںسنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیںسنا ہے رات سے بڑھ کے ہیں کاکلیں اُس کی سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیںسنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے سو اُس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیںسنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں سو ہم بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیںسنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی جو سادہ دل ہیں بن سنور کے دیکھتے ہیںسنا ہے جب سے حمائل ہے اس کی گردن میں مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیںسنا ہے چشمِ تصور سے دشت امکان میں پلنگ زاویے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیںسنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسے ہے کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیںوہ سر وقد ہے مگر بے گل مراد نہیں کہ اس شجر پر شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیںبس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا سو راہ رواں تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیںسنا ہے اس کے شبستان سے متصل ہے بہشت مکیں ادھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیںرکے تو گردشیں اس کا طواب کرتی ہیں چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیںکہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی اگر وہ خواب ہے تو تعبیر کرکے دیکھتے ہیںاب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کرجائیں فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیںاحمد فراز غزلhttp://afsanaghar.ml/ahmad-faraz.php?page=2See More


from Latest Activity on Virtual University of Pakistan https://ift.tt/2OgXS9d

0 comments:

Post a Comment